logo-1
Friday, April 19, 2024
logo-1
HomeNational Politicsیومِ آزادی کی مناسبت سے رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام سیمینار پاکستان...

یومِ آزادی کی مناسبت سے رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام سیمینار پاکستان کی کامیابیاں اور درپیش چیلنجز

رپورٹ: سید زین العابدین
پاکستان کی خارجہ پالیسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے، نجم الدین شیخ
ہم کوریڈور کنٹری بننے جارہے ہیں، ڈاکٹر ہما بقائی
پاکستان سے لوٹے ہوئے 350 ارب ڈالر واپس آجائیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا، شاہدہ وزارت
پاکستان نے ہر میدان میں ترقی کی ہے، دفاع مضبوط ہے، نصرت مرزا
ہماری معاشی مشکلات بدعنوان حکمرانوں کی وجہ سے ہیں، ایوب الحسن
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین اور عرب ملکوں کو اہمیت حاصل ہے، ڈاکٹر تنویر خالد
ماحول اور پانی کے ذخائر بنانے میں ہم نے کوتاہی کی، ڈاکٹر سیما ناز صدیقی
ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم کے وقت پاکستان کو خیمہ سے تعبیر کیا تھا ، ڈاکٹر محبوب حسن مقدم

رابطہ فورم انٹرنیشنل کی جانب سے یوم آزادی کی مناسبت سے سیمینار ’’پاکستان کی کامیابیاں اور درپیش چیلنجز‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔
سابق سفیر و سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا انحصار وقتی مفاد کے تحت رہا ہم امریکا کے قریب ہوگئے، آزادی کے فوراً بعد ہمیں وسائل کی ضرورت تھی جو امریکا سے مل سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا اگر ہم امریکا کے لئے کام کرتے رہے تو جواب میں امریکا نے بھی ہمیں بڑی مدد دی، اب دنیا تبدیل ہورہی ہے نئے چیلنجز اور دوستی و دشمنی کی نئی راہیں بن رہی ہیں، اس وقت امریکا کا دفاعی بجٹ 760 بلین ڈالر ہے کیونکہ امریکا کا اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے اتنا بڑا بجٹ رکھنا پڑ رہا ہے، افغانستان کی جنگ اور روس، چین کے خطرات نے امریکا کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنی پالیسی کے تسلسل کے لئے بڑی مقدار میں رقم خرچ کرے، افغانستان میں امریکا ایک جانب طالبان سے مذاکرات کررہا ہے تو دوسری جانب کابل حکومت کے شمالی اتحاد کو بھی سپورٹ کررہا ہے اور ساتھ ہی داعش کو بھی انسٹال کررہا ہے، پاکستان کو اس سارے منظرنامے میں بہت احتیاط سے کام کرنا ہوگا، سی پیک منصوبہ دشمنوں کا ہدف ہے ہمیں اس کے تحفظ کے ساتھ نئی دشمنی بھی نہیں پالنی ہے کیونکہ بھارت جیسا روایتی دشمن ہمارے خلاف روز نئی سازش کرنے میں مصروف ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ اب دنیا پہلے جیسی نہیں رہی، بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے، راہداریوں کی بڑی اہمیت ہوگئی ہے، کوسٹل اور زمینی راستے کے ساتھ فضائی راستوں کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے، ہم سی پیک کی وجہ سے ایک کوریڈور کنٹری بن رہے ہیں، اس کا فائدہ اٹھانا ہمارا کام ہے، ہمیں دشمنوں کے ساتھ راہداریوں کے معاملات طے کرنا ہے، اس کی مناسب قیمت وصول کرنی ہے، 9/11 کے بعد دنیا تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی، چین ایک تھنڈا ملک تھا اسے دنیا کی پاور پالیکٹس سے خاص رغبت نہیں تھی مگر دنیا نے دیکھا کہ چین نے آہستہ آہستہ امریکا کی جگہ لینا شروع کردی، روس جو کمزور ہوچکا تھا وہ مضبوط ہوتا گیا، چین اور روس امریکا کے خلاف متحد ہوگئے، اس اتحاد سے دنیا کو ایک نیا ورلڈ آرڈر ملنے والا ہے جو 2019ء تک سامنے آجائے گا، پاکستان کو مواقع مل رہے ہیں اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
ڈاکٹر تنویر خالد نے کہا کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد قائداعظم کی رحلت سے ہمارے لئے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہوئی، ہماری قیادت ان خوبیوں کی مالک نہیں تھی جیسا کہ اس وقت ضرورت تھی، ہمیں روس اور امریکا میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا، ہم امریکا گئے جس کے مثبت فوائد بھی نظر آئے، ہم نے خارجہ پالیسی کو اس نہج پر نہیں بنایا جس سے دیر تک فوائد حاصل ہوں لیکن ہم نے چین جیسا مستقل دوست ضرور بنایا، ایران جیسے برادر ملک سے تعلقات کو مضبوط کیا، سعودی عرب سے قریبی تعلقات کو قائم کیا، عرب ملکوں سے تعلقات کو مستحکم کیا، مڈل ایسٹ سے متعلق ایک واضح پالیسی بنائی، اسرائیل کو ہم نے تسلیم نہیں کیا، بھارت کے ساتھ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی، اگرچہ اس کا دیرپا حل نہیں ہوسکا، ان تنازعات کے باعث ہماری تین بڑی اور ایک محدود کارگل وار ہوئی، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے، سی پیک کے منصوبے میں پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، دنیا میں تجارت کو فروغ مل رہا ہے، پاک چائنا کوریڈور اس تجارتی روابط کو بڑھانے کے لئے انتہائی اہم ہے اور یہ سب کچھ پاکستان سے ہوگا، چین سے دنیا کی تجارت کے لئے پاکستان کے راستے استعمال ہوں گے، یہ ہمارے لئے بہت سنہری موقع ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں۔
ڈاکٹر محبوب مقدم نے کہا کہ دنیا تبدیل ہورہی ہے تو پاکستان میں بھی تبدیلی آگئی ہے اب ہمارے روایتی سیاستدانوں کا کردار کم ہوتا جارہا ہے، حالیہ انتخابات میں موروثی سیاست کا 60 فیصد خاتمہ ہوچکا ہے، اس وقت ہماری پارلیمنٹ میں 40 فیصد موروثی سیاستدان منتخب ہوئے، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، پہلے ہم جن اداروں پر بات نہیں کرسکتے تھے آج ہم ان پر کھلی تنقید کررہے ہیں کیونکہ ان اداروں کا جو کام ہے انہیں وہ کرنا چاہئے لیکن اس کے مواقع حکومت ہی نے دیئے، اگر حکومت ڈیم نہیں بائے گی تو مجبوراً عدلیہ کو آگے آنا پڑا ہے، پانی کے ذخائر کے لئے ہم نے اس طرح کام نہیں کیا جیسا کہ کرنا چاہئے تھا، پاکستان میں تبدیلی یہ آرہی ہے کہ اب سوشل میڈیا بہت فعال ہے، جس کی وجہ سے ایسے عنوانات پرنٹ اور الیکٹرونکس میڈیا پر نہیں آسکے مگر سوشل میڈیا نے اسے نمایاں کیا، گزشتہ 71 سالوں میں ہم نے کچھ جگہ کوتاہی کی لیکن بہت سے شعبوں میں نمایاں کامیابی حاصل بھی کی ہے۔
ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کہا کہ پاکستان کو 90 کی دہائی میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں پھنسایا گیا، بجٹ سپورٹ فنڈ کے نام پر قرضہ لیا گیا لیکن اس کا پروڈکٹو استعمال نہیں کرسکے، جمہوری حکومت نے قرضے لئے لیکن عوام کے مفاد میں خرچ نہیں کیا، پاکستان کے پاس وسائل بہت ہیں لیکن اس کو ایمانداری سے استعمال نہیں کیا جارہا، ہم اپنی غیرضروری درآمدات سے اپنے لئے مشکلات کھڑی کررہے ہیں، فوڈ سیکٹر میں ہمارا 7 ارب ڈالر میک اَپ کنزیومر آئٹمز میں 3.5 ارب ڈالر آئل اور پیٹرولیم سیکٹر میں 6.68 ارب ڈالر کی درآمدات کیں جس سے ہماری معیشت پر غیرضروری بوجھ پڑا، آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے ہمارے 5 ہزار یونٹس بند ہوئے جس سے ملکی صنعت متاثر ہوئی، بدعنوانی اور منی لانڈرنگ نے ہماری معیشت کو بہت نقصان پہنچایا، ہمارے تین ٹریلین ڈالر سوئس بینکوں اور دیگر ملکوں میں گئے، گزشتہ سال 10 بلین ڈالر قانونی طور پر ملک سے باہر گئے، اس سال 15 بلین ڈالر بھیجے گئے، غیرقانونی طور پر اس سے زیادہ رقم باہر گئی، ہمارے 350 ارب ڈالر ملک سے باہر غیرملکی طور پر لے جائے گئے، اگر یہ رقم ملک میں واپس آجاتی ہے تو اس سے ملک کا قرضہ بھی اتر جائے گا اور ملک چلانے کے لئے سرمایہ بھی آجائے گا۔
ڈاکٹر سیما ناز صدیقی نے کہا کہ آزادی کے بعد ہمیں مہاجرین کی آباد کاری، ملک چلانے کے لئے وسائل کی فراہمی، بھارت سے تنازعات کو حل کرنا اور پڑوسی ممالک سے تعلقات استوار کرنے کا چیلنج درپیش تھا، ہم نے گزشتہ 70 سالوں میں مختلف شعبوں میں نمایاں کام کیا لیکن ماحولیات اور پانی کے ذخائر بنانے کے حوالے سے مناسب پالیسی نہیں بنائی گئی، اس وقت ہم گلوبل وارمنگ کا شکار ہیں جن ممالک کی وجہ سے ماحولیات میں بگاڑ پیدا ہوا، انہوں نے تو اس پر قابو پا لیا لیکن ہم کچھ نہ کرسکے اور اب سیلاب کا سامنا کرتے ہیں تو کبھی خشک سالی ہوتی ہے، ہمارے گلیشیئر پگھل رہے ہیں گلگت بلتستان کے پہاڑوں پر 2500 میٹر پر برس ہوتی تھی اب 4000 میٹر ہوتی ہے، اگر یہ گلیشیئر اسی طرح پگھلتے رہے تو آنے والے سالوں میں ہمیں پانی کی کمی کا سامنا ہوگا، عالمی سطح پر کسی ملک کے پاس 120 دنوں کا پانی ہونا چاہئے، ہمارے پاس صرف 20 دنوں کا ہوتا ہے، بھارت نے 220 دنوں کا پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے، ہمیں ڈیمز بنانے پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔
سیدایوب الحسن نے کہا کہ پاکستان کو معاشی میدان میں بڑے گھمبیر مسائل کا سامنا رہا، ہمیں کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کرنی تھی لیکن ہم ایسا نہیں کرسکے، قدرتی وسائل اور مین پاور کو درست طریقے سے استعمال نہیں کرسکے، ہمارا ٹیلنٹ ملک سے باہر گیا جس کا ہمیں نقصان ہوا۔ لیکن پھر بھی صنعت، زراعت کے شعبوں میں بڑا کام ہوا، تعمیرات کے شعبے نے بھی ترقی کی، سیمنٹ اور اسٹیل کے شعبے بہتر ہوئے، پڑوسی ممالک ان شعبوں میں ہم سے مدد لے رہے ہیں، 71 سال گزرنے کے بعد سب کچھ خراب نہیں ہے، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنی ہے۔
ڈاکٹر شجاعت حسین نے کہا کہ یہ میڈیا کا دور ہے بلکہ ہر زمانہ ذرائع ابلاغ کا زمانہ ہوتا ہے، آج سوشل میڈیا جیسا پُراثر میڈیا ہمارے پاس ہے بہت سے عنوانات سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آئے، پاکستان کے نوجوان بہت باشعور ہوچکے ہیں انہیں 71 سالوں کی کامیابی اور آنے والے چیلنجز کا ادراک ہے، ہمارے نوجوان مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتیں منوا رہے ہیں، پاکستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ اس پر توجہ نہیں دے رہا، اداروں میں ٹکراؤ کی کیفیت ہے، ہمارا میڈیا آزاد ہے لیکن ایک حد تک کیونکہ ضرورت سے زیادہ آزادی خطرات بھی پیدا کرتی ہے، بہرحال میڈیا کی طاقت مستحکم ہوئی ہے جو چیز چھپائی جاتی تھی اب وہ منظرعام پر آجاتی ہے۔
بلوچستان کے تحقیق کار جاوید صدیق نے کہا کہ پاکستان میں وسائل اور اختیارات کی تقسیم اہم مسئلہ رہا ہے، آزادی کے بعد کچھ چیزوں کا متعین نہ کرنا بڑے مسائل کا سبب بنا، بلوچستان کو دیکھ لیں تو وہاں وسائل بہت تھے لیکن ان کو استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، اگر قدرتی وسائل کو نکال لیتے ہیں تو بلوچستان کے ساتھ پورا ملک ترقی کرے گا۔
سابق سفیر سید حسن حبیب نے کہا کہ خارجہ پالیسی کسی ملک کے مفاد اور اہداف کے مطابق ترتیب دی جاتی ہے، پاکستان بننے کے بعد 1951ء میں لیاقت علی خان امریکا گئے، 54 میں امریکا سے دفاعی معاہدہ ہوا، 1955ء میں ہم سیٹو اور سینٹو میں شامل ہوئے، اس طرح ہم پڑوس میں روس کو چھوڑ کر امریکی کیمپ میں شامل ہوئے جس کا ہمیں کچھ نقصان ہوا لیکن ساتھ میں فائدہ بھی ہوا، افغانستان سے ڈیونڈلائن پر اختلافات رہے جو اب بھی کچھ نہ کچھ موجود ہیں، بھارت سے سرکریک، کشمیر، پانی اور بعد میں سیاچن کا مسئلہ پیدا ہوا جو ابھی تک حل طلب ہیں، افغانستان روس جنگ میں امریکا کے ساتھ مل کر ہم نے جہاد کیا پھر 9/11 ہوگیا تو یہ جہادی ہمارے گلے پڑ گئے، ہم نے دنیا سے چھپ کر کچھ ایسا کام کیا جو بڑی طاقتوں کو قابل قبول نہ تھا، ہم ایک آزاد ملک ضرور ہیں مگر خودمختار ملک نہیں ہیں، ہم نے ایک اسلامک بلاک بنانے کی کوشش کی جو زیادہ پائیدار نہ ہوسکی لیکن ایران، ترکی اور عرب ممالک سے ہمارے قریبی تعلقات پیدا ہوئے، ہماری خارجہ پالیسی کی اہم کامیابی چین سے مضبوط تعلقات بنانا تھا جس کے ثمرات چین پاکستان اقتصادی راہداری کی شکل میں موجود ہیں، 71 سالوں کا جائزہ لیں تو ہم نے ناکامی سے زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
نصرت مرزا نے کہا کہ پاکستان نے آزادی کے بعد بہت سے شعبوں میں مثالی کام کیا، ہمارے ایٹمی سائنسدانوں نے ملک کی ترقی اور دفاع کے لئے قابل قدر کام کیا، ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے ساتھ زراعت کے شعبے میں 98 پراڈکٹس کے بیج تیار کئے، صحت کے شعبے میں کینسر کے علاج کے مراکز قائم کئے، تعلیم کے چھ ادارے بنائے، ہماری پالیسی پر بڑی تنقید ہوتی ہے لیکن ہمارے اداروں نے ملک کے مفاد میں امریکا کا ساتھ دیا اور ملک کے مفاد ہی میں امریکا سے 2010ء میں الگ ہوگئے، اب چین اور روس کی طرف ہمارا جھکاؤ ہے جو امریکا کو پسند نہیں ہے، ہمارے اداروں پر الزامات لگتے ہیں کہ وہ پس پردہ کردار ادا کرتے ہی امریکی صدر کے پیچھے پنٹاگون کا کردار ہوتا ہے، اگر امریکی صدر من مانی کرے گا تو پنٹاگون گلا دبا دے گا، پاکستان نے 71 سالوں میں بہت سے شعبوں میں نمایاں کام کیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا ہے تاکہ ہماری نئی نسل کا مستقبل محفوظ ہوسکے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments