logo-1
Thursday, March 28, 2024
logo-1
HomeHistory and Heritageرابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام مذاکرہ دو قومی نظریہ کا سچ ثابت...

رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام مذاکرہ دو قومی نظریہ کا سچ ثابت ہونا

قائداعظم کو ہندوؤں کی متعصبانہ روش کا ادراک تھا، علامہ سید افتخار حسین نقوی

بانی پاکستان تحریک پاکستان کو مذہبی رنگ نہیں دینا چاہتے تھے، تاج حیدر

تئیس مارچ 1940ء کو تاریخی جلسے سے مسلمان پُرجوش ہوگئے تھے، میاں عبدالمجید

انگریز ہندوؤں کو مسلمانوں پر فوقیت دیتے تھے، ڈاکٹر عارف زبیر
مودی کے تعصب نے دوقومی نظریہ کی اہمیت کو مزید اُجاگر کیا، وائس ایڈمرل عارف اللہ حسینی

قائداعظم نے مسلمانوں کو یکجا کیا پھر تحریک چلائی، خواجہ رضی حیدر

مسلمانوں نے ایک ہزار برس ہندوستان پر راج کیا مگر تعصب نہیں برتا، ڈاکٹر ثمر سلطانہ

قائداعظم سیکولر نظام نہیں بلکہ عدل و انصاف کی حکمرانی چاہتے تھے، ڈاکٹر زاہد علی زاہدی

مودی پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیا اور ملائیشیا کو اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے، نصرت مرزا

زاویہئ نگاہ رپورٹ
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام ”دوقومی نظریہ کا سچ ثابت ہونا“ کے موضوع پر مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا۔ مذاکرے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر علامہ سید افتخار حسین نقوی، پیپلزپارٹی کے رہنما سابق سینیٹر تاج حیدر، نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی کے چانسلر میاں عبدالمجید، وفاقی اُردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عارف زبیر، وائس ایڈمرل (ر) سید عارف اللہ حسینی، قائداعظم اکیڈمی کے سابق سربراہ خواجہ رضی حیدر، جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ، کلیہ معارف اسلامی کے ڈاکٹر زاہد علی زاہدی اور رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے خطاب کیا۔
(علامہ سید افتخار حسین نقوی (ممبر اسلامی نظریاتی کونسل
بانی پاکستان اور مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے آزادی کی تحریک میں ہندوؤں کے متعصبانہ عمل اور تنگدلی کا ادراک کرلیا تھا انہیں یقین ہو چکا تھا کہ ہندو اپنی نفرت کی بنا پر مسلمانوں کے لئے مسائل کھڑے کریں گے، اسی لئے انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد کی، آج جو کچھ ہندوستان میں ہورہا ہے وہ ہمارے اکابرین کے خدشات کو درست ثابت کررہا ہے، بھارت کے مسلمان ہندو فسطائیت کا شکار ہیں، ان کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے، ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ قائداعظم محمد علی جناح، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور دیگر جہاندیدہ اکابرین برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے موجود تھے جو ہندوؤں کی ذہنیت کو جانتے تھے، آج جو کچھ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے ہمارے اکابرین نے اس کا اندازہ پہلے ہی لگا لیا تھا ایک آزاد مملکت کا حصول برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک نعمت ہے، یہ علیحدہ بات ہے کہ جن مقاصد کے لئے یہ مملکت حاصل کی گئی تھی وہ پورے نہیں کئے جاسکے، ہمیں اپنی غلطی کا ادراک اور اعتراف کرنا چاہئے، سیاسی رہنماؤں کو قائداعظم اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے افکار و نظریات سے رہنمائی لینی چاہئے کیونکہ ان اکابرین کے نظریات و خیالات قرآن و سنت کے مطابق ہیں، اگر ان نکات پر عمل ہو تو ترقی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، موجودہ دور میں ہمیں ایک وبا کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لئے سب کا متحد ہونا ضروری ہے، ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ حکومت کے احتیاطی اقدامات اور احکامات کی پابندی کرے اور وزارت صحت کی دی گئی رہنمائی پر عمل کرے، میں تمام پاکستانی بھائیوں سے یہ کہتا ہوں کہ اس موقع پر اپنے کشمیری بھائیوں کو نہ بھولیں، کشمیری بھارتی ظلم و ستم کی وجہ سے گزشتہ 8 ماہ سے لاک ڈاؤن میں ہیں، ان کی تکالیف کا دنیا کو اب احساس ہورہا ہوگا، پوری دنیا اس وبا سے متاثر ہے، عالمی رہنماؤں کو مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی مشکلات کا احساس ہورہا ہوگا، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کشمیری بھائیوں کی آزادی اور خودمختاری کے مطالبے کو پورا کروانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں، اس وقت صاحبِ ثروت طبقے پر یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے اردگرد موجود مزدوروں، چھابڑی والے، ٹھیلے والے، کم آمدنی والے طبقے کا خیال رکھیں، ان کی دادرسی کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مال تو میرا مال ہے یہ میں نے ہی دیا ہے، صاحب ثروت کے پاس جو مال ہے وہ میری امانت ہے اور جو محروم ہیں وہ میری عیاں ہیں جو میرے دیئے مال میں سے فقرا غربا پر خرچ نہیں کرے گا تو میں اسے جہنم میں ڈالوں گا اور کسی کی پرواہ بھی نہیں کروں گا۔ اللہ سے دُعا ہے کہ اپنے کرم کے باعث اپنے حبیبؐ اور ان کی آلؑ کے واسطے ہم پر رحم کر، ہم امتحان کے قابل نہیں ہیں، ہمیں معاف فرما اور اس وبا کی ہلاکتوں سے محفوظ رکھ اس وبا کا خاتمہ فرما۔
(سینیٹر تاج حیدر (رہنما پیپلزپارٹی
قراردادِ پاکستان کا ایک سیاسی پس منظر ہے، برصغیر کے عوام آزادی کی جدوجہد کررہے تھے، ایک اہم نقطہ یہ تھا کہ آزادی کی جدوجہد میں کانگریس کو ساتھ ملایا جائے کیونکہ ہندوؤں کی اکثریت تھی، یہ تعاون اس بنیاد پر دیا جاسکتا تھا کہ ہندو اکثریت اقلیت کو حقوق دینے پر راضی ہیں، 1916ء میں قائداعظم نے لکھنو پیکٹ کے ذریعے دونوں قوموں کے معاملات طے کر لئے تھے کہ اس کے مطابق یہ اتحاد برقرار رہے گا، لیکن پھر گاندھی ہندوستان کی سیاست میں داخل ہوئے تو یہ نظریہ دیا کہ آزادی کی جدوجہد میں مذہب کا سہارا لینا پڑے گا، وہ کسی ایک مذہب پر محدود نہیں ہورہے تھے بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں کو اس حوالے سے متحرک کررہے تھے، اسی وجہ سے سیاست میں مذہبی عنصر شامل ہوا، جناح مذہب کو سیاست میں شامل کئے جانے کے حق میں نہیں تھے، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ 1924ء میں جو خلافت موومنٹ چلائی گئی تو محمد علی جناح اس سے الگ رہے، البتہ گاندھی اس میں شریک ہوئے قائداعظم کا خیال تھا کہ اس تحریک میں مذہب کا استعمال ہوگا تو انتہاپسندوں کے لئے رستہ کھلے گا، اس حوالے سے قائداعظم نے گاندھی جی کو کئی خطوط لکھ کر اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اگر آپ کی جانب سے مذہبی لوگوں کو آگے لایا جائے گا، ان کی سرپرستی کی جائے گی تو مسلمانوں کے اندر بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کرنے کے لئے دباؤ بڑھے گا، بہرحال 1937ء میں انتخابات ہوئے تو کانگریس نے 6 صوبوں میں اکثریت حاصل کرلی لیکن پھر ان حکومتوں نے اقلیت کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے قائداعظم یہ سمجھ گئے کہ اب ہندو اپنی اکثریت کی بنا پر اقلیت کو دبائیں گے، اکتوبر 1938ء میں سندھ مسلم لیگ نے عیدگاہ گراؤنڈ کے جلسے میں قرارداد پاس کی کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا جائے۔ برصغیر کی تقسیم میں سامراج نے دو بڑے مسئلے چھوڑ دیئے، ایک کشمیر اور دوسرا دریائی پانی کے مسائل تھے کیونکہ اگر نہریں پاکستان کے علاقے میں ہیں تو ہیڈ ورکس ہندوستان میں ہے کشمیر کے لئے 1948ء میں اقوام متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کردی لیکن اس پر عمل نہیں کروایا، ان دو مسائل کی وجہ سے دونوں ملکوں کے وسائل فوجی تیاری پر خرچ ہونے لگے خصوصاً بھارت کی کوشش رہی ہے کہ مہلک اور جدید ہتھیاروں کے حصول پر پوری توجہ دی جائے، مجبوراً پاکستان کو بھی اپنی حربی صلاحیت کو بہتر کرنے کے لئے وسائل درکار تھے، اس طرح عالمی ساہوکاروں سے قرض لینا پڑے، یہ وہی ساہوکار ہیں جو برصغیر کے ان دیرینہ مسائل کے ذمہ دار ہیں، جواہر لعل نہرو اور پاکستانی قیادت نے پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ کرلیا تھا، 1962ء کے اس معاہدے کے بعد 1965ء اور 1971ء میں جنگیں ہوئیں لیکن یہ معاہدہ برقرار رہا، 70 کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر کے رہنما شیخ عبداللہ کو رہا کرکے پاکستان بھیجا گیا، شہید ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی میٹنگ ہوئی، شاید اس حوالے سے بھی کوئی حل نکل آتا لیکن جس روز شیخ عبداللہ مظفر آباد عوامی جلسے سے خطاب کرنے جارہے تھے اُسی دن جواہر لعل نہرو کا انتقال ہوگیا، اس طرح انہیں اپنا دورہ ختم کرکے واپس جانا پڑا، اس کے بعد بھی بہت کوششیں ہوئیں لیکن بھارت کے حکمران مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو استصوابِ رائے دینے کے حق سے محروم رکھتے رہے۔

(میاں عبدالمجید (چانسلر نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی
ہم گجرانوالہ سے 12 میل دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے، میرے والد اسکول ٹیچر تھے، وہ شروع ہی سے مسلم لیگی تھے، میرے والد نے کہا کہ تیار ہو جاؤ ہم لاہور جارہے ہیں، میرے بڑے بھائی میاں عبدالرشید دیال سنگھ کالج میں پڑھتے تھے، میں سمجھا کہ ان سے ملانے لے جارہے ہیں، ہم کچے راستوں کا تین گھنٹے کا سفر کرکے گجرانوالہ پہنچے پھر لاہور 21 مارچ کو دیال سنگھ کالج لاہور کے ہاسٹل آئے، میرے بڑے بھائی کے دوست نظریہ پاکستان پر اظہار خیال کررہے تھے وہاں لاہور میں ہونے والے جلسے پر گفتگو ہورہی تھی، اس جلسے سے چند دن پہلے خاکسار تحریک اور انگریز حکومت کے درمیان تصادم ہوچکا تھا، جس کی وجہ سے صورتِ حال کشیدہ تھی، خاکسار بیلچہ لے کر بڑی تعداد میں نکلے تھے، انگریزوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا، خاکسار کے کارکنوں کو روکا گیا تو ایک بیلچہ بردار کارکن نے انگریز سپرٹنڈنٹ کو زخمی کردیا، جس پر خاکساروں پر گولیاں برسائی گئیں، جس سے جانی نقصان ہوا، ہم جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اندرون شہر میں جگہ جگہ پھول رکھے ہوئے ہیں، میں نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ جہاں جہاں خاکساروں کا خون گرا تھا وہاں لاہوریوں نے ان سے خلوص و وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے پھول رکھے تھے، بادشاہی مسجد سے ہوتے ہوئے ہم لاہور کے منٹو پارک پہنچے، وہاں شامیانے لگے ہوئے تھے، لوگوں کا ہجوم تھا، اس ہنگامے کے بعد بے یقینی تھی کہ جلسہ ہوسکے گا یا نہیں، قائداعظم نے لاہور پہنچنے سے پہلے تمام رہنماؤں کو منع کردیا تھا کہ ان کے استقبال کیلئے کوئی نہ آئے، حالانکہ ایک بہت بڑا جلوس ان کو لے جانے کیلئے تیار تھا، قائداعظم لاہور پہنچ کر پہلے اسپتالوں میں زخمی خاکساروں کی عیادت کو گئے اور پھر پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ہم اپنا جلسہ ضرور کریں گے، انگریزوں کا منصوبہ تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ نہ ہونے پائے لیکن وہ جلسہ ہوا، مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہوئے، ہزاروں نوجوان وردی میں لوگوں کی رہنمائی کررہے تھے، میری عمر 7 برس تھی، بڑے بڑے رہنماؤں کو میں نے ایک ساتھ پہلی مرتبہ دیکھا تھا، وہاں ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح کا ریکارڈ چل رہا تھا، اس جلسے میں مجھے یہ احساس ہوا کہ میں ایک بڑی ملت کا فرد ہوں جو زندگی کے ہر شعبے میں ایک واضح نظام رکھتی ہے۔ پھر میرا اسلامیہ ہائی اسکول سے داخلہ ہوا تو وہاں صبح ہم سارے طلبا اور ٹیچرز ایک ساتھ ایک ترانہ پڑھتے تھے جسے چار سے پانچ طالب علم لیڈ کرتے تھے اور باقی سب ان کا ساتھ دیتے تھے، اس سے ہم میں بہت جوش و جذبہ پروان چڑھتا تھا، ہماری خوشی یقینی تھی کہ ہمیں بہترین اساتذہ ملے تھے، جو ہماری شخصیت کو سنوارتے تھے، پھر ”ہم بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان“ کا نعرہ لگاتے تھے، چاہے لاہور میں ہوں یا گاؤں چلے جائیں، یہ نعرہ لگاتے رہتے تھے، اس طرح عوامی جدوجہد اور شعور سے ہم نے یہ وطن حاصل کیا تھا، اب ہمیں پھر اسی طرح کے جذبے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی دادرسی کرسکیں، انہیں ہندوتوا کے متعصبانہ رویے سے نجات دلا سکیں اور اس میں ہمیں بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا ساتھ بھی درکار ہوگا کہ وہ ایک مرتبہ پھر ہمارے ساتھ شامل ہو کر اس خطے میں بسنے والے مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کریں۔
(پروفیسر ڈاکٹر عارف زبیر (وائس چانسلر، وفاقی اُردو یونیورسٹی
تحریک پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی دلوانے اور ان کی تعمیر و ترقی کے لئے تھی، چونکہ انگریز شروع ہی سے مسلمانوں پر ہندوؤں کو فوقیت دیتے تھے، مسلمانوں کو ناپسند کرتے تھے، اگرچہ مسلمان تعداد میں کم تھے مگر باشعور تھے اور تقریباً ایک ہزار سال ہندوستان پر حکومت کر چکے تھے، انگریزوں کو مسلمانوں کی طرف سے مزاحمت کا زیادہ خطرہ تھا اس لئے وہ ہر شعبے میں مسلمانوں کا استحصال کرتے تھے، سر سید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی یہ بصیرت تھی کہ انہوں نے ایک علیحدہ وطن کے حصول کی تحریک کو پروان چڑھایا، جس کا ایک مظاہرہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں ہوا، انگریزوں نے 1935ء میں انڈین ایکٹ نافذ کیا جو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف تھا، اس ایکٹ کی وجہ سے مسلمانوں میں بے چینی بڑھی، جس طرح آج کل ہندوستان میں شہریت کا قانون تبدیل کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں کے مفادات کو ٹھوس ضرب لگی ہے، اسی طرح کا ماحول اس وقت انگریز سرکار نے بنا رکھا تھا، مسلمان اکابرین کافی عرصے سے جدوجہد کررہے تھے لیکن 1935ء کے ایکٹ نے ان کی سمت کا تعین کردیا، انہیں احساس ہوگیا کہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ انگریزوں یا ہندوؤں کے زیرحکومت رہ کر ممکن نہیں ہے اسی لئے لاہور کے منٹو پارک میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کی قرارداد منظور ہوئی تاکہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات اور رسوم و رواج کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں، اس قرارداد کے مطابق جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، انہیں ملا کر ایک علیحدہ وطن بنا دیا جائے، آج جو کچھ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سر سید احمد خان نے دو قومی نظریہ کیوں پیش کیا تھا، جسے علامہ اقبال نے آگے بڑھایا اور قائداعظم نے نتیجہ خیز بنایا، جس طرح اس دور میں دہلی، گجرات اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے اس سے قائداعظم کے اُس وژن کو تقویت ملی ہے کہ برصغیر میں ہندو اپنی اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو محکوم رکھیں گے اور اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں گے، اس لئے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔
وائس ایڈمرل (ر) سید عارف اللہ حسینی
جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو قائداعظم نے فرمایا کہ نئی مملکت میں عدل اسلامی کے عمرانی اصولوں کے مطابق سب کو بنا رنگ، نسل و مذہبی امتیاز کے برابر کے حقوق حاصل ہوں گے، جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ آئین و قانون کی بالادستی ہو لیکن جس نظام میں استحصال ہورہا ہو تو اکثریت کی بنا پر بھیانک جمہوریت ہوتی ہے، جیسا کہ آج کل بھارت میں ہورہا ہے، اس کی ایک مثال نازی جرمنی کی ہے جہاں تعصب کی بنا پر بہت سارے انسانوں کو قتل کیا گیا، اگر ایک معاشرے میں مختلف رنگ و مذہب کے لوگ بستے ہوں مگر ان کا نظریہ ایک ہو تو انہیں قوم کہا جاتا ہے، سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں مشترک نظریے کے افراد جڑتے جارہے ہیں، پاکستان کا دو قومی نظریہ لازوال ہے کیونکہ یہ اللہ اور اس کی کتاب قرآن مجید کے مطابق ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وہ لوگ جو متقی ہیں، نیک ہیں وہ اکھٹے ہوجائیں گے اور جو بُرائی والا گروہ ایک طرف ہوجائے گا، پاکستان اسی لئے قائم کیا گیا کہ یہ ایک فلاحی ریاست ہو جس میں قرآنی معاشرے کی تشکیل کی جاسکے تاکہ اقوام متحدہ میں وہ ممتاز حیثیت حاصل کریں یعنی اس فلاحی ریاست کے ذریعے دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی کامیاب ہوسکیں، پاکستان کے قومی ترانے کی تشریع بھی یہی ہے اس سبز پرچم کے سائے تلے بسنے والے کمال کی منزل پر پہنچ کر دنیا کی رہبری کریں، یوم پاکستان کے موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ اس وطن کی تعمیر و ترقی اور سلامتی کے لئے متحد ہیں۔ بھارت جمہوریہ ہونے کا دعویٰ دار ہے لیکن یہ جمہوریت بے لگا ہے کیونکہ اکثریت نے اقلیت کو حقوق سے محروم کررکھا ہے، اس وقت بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ دو قومی نظریے کی حقیقت کو ثابت کررہا ہے، قائداعظم نے ہندو رہنماؤں کی اس فسطائیت کو اسی وقت محسوس کرلیا تھا اسی لئے برصغیر کے مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کروانے کے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا، انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ہندوستان میں ہندو اپنی اکثریت کی بنا پر مسلمانوں پر بالادستی حاصل کریں گے، انہیں محکوم بنائیں گے، جمہوریت کا تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ سب کے برابر حقوق ہوں، قانون کی بالادستی ہو اور غیرجانبدار داروں کا قیام ہو لیکن آج کے دور میں بھارت میں اس کے الٹ ہورہا ہے، حتیٰ کہ بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلوں نے اس کی جانبداری عیاں کردی ہے، برصغیر کے مسلمانوں نے خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے اپنے لئے علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد کو شروع کیا اور ایک الگ وطن کا قیام عمل میں آیا، کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد دو قومی نظریہ دفن ہوگیا، یہ مفروضہ غلط ہے کیونکہ تقسیم ہند کی بنا پر پاکستان وجود میں آیا، جس کی اساس دو قومی نظریہ تھی، بنگلہ دیش کبھی نہیں بن سکتا تھا اگر وہ مشرقی پاکستان نہ بنتا، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ضرور بنا مگر بھارت میں ضم نہیں ہوا، یہی اس کی دلیل بنتی ہے کہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے، جمہوریت اپنی اصل خدوخال میں ہو تو بہت دلکش نظر آتی ہے جیسا کہ مغربی ملکوں کی جمہوریت ہے مگر اب امریکا جیسے ملک میں بھی یہ گینا رہی ہے گورے اور کالے کا فرق نمایاں ہورہا ہے، بہت سی اقلیتوں کو مساوی حقوق نہیں دیئے جارہے۔

(خواجہ رضی حیدر (سابق سربراہ قائداعظم اکیڈمی
قراردادِ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا کیونکہ اس خطے میں کئی دوسری قوم اور مذہب کے لوگ آئے تو انہوں نے ہندوؤں کے رنگ کو اپنا لیا لیکن مسلمان ہمیشہ سے اپنے مذہب پر قائم رہے، جہانگیر کے دور میں مجدد الف ثانی نے بھی ہندو اور مسلمانوں کی زندگی کے جداگانہ طرز کو بیان کیا اور یہ سلسلہ سرسید احمد خان تک پہنچا، پھر مختلف اکابرین نے بھی اس کا اظہار کیا، انگریزوں کے زمانے میں بنارس کے ایک کمشنر جن کا نام شکسپیئر تھا کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نمایاں فرق ہے، یہ دو الگ الگ قومیں ہیں، 23 مارچ 1940ء کو جو قرارداد منظور ہوئی اس میں پاکستان کا لفظ آیا، چوہدری رحمت علی اس نام کے خالق تھے، بعد میں یہ نام ہر مسلمان کے زبان پر آگیا جس کی ہندو قیادت نے بڑی مخالفت کی لیکن اب مسلمان اپنے ہدف کی طرف گامزن ہوچکے تھے، بیگم مولانا محمد علی جوہر، چوہدری خلیق زماں، نواب اسماعیل خان، عبدالرؤف، مولانا محمد بدایونی جو کہ اقلیتی صوبے سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بھی قراردادِ لاہور کے منظور ہونے کے بعد اس نام کو اپنا لیا، پھر آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ ہر سال اس دن کو قراردادِ پاکستان کے نام سے منایا جائے گا، قائداعظم نے 21 اپریل 1940ء کے اجلاس میں یہ ہدایت کی کہ 23 مارچ 1940ء قرارداد اور لاہور کے جلسے کے پیغامات کو پورے ہندوستان کے مسلمانوں تک پہنچایا جائے۔ اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلم لیگ کا اگلا اجلاس مدارس میں کیا گیا، جہاں صرف 7 فیصد مسلمان رہتے تھے اس طرح ہماری قیادت نے سب کو ساتھ ملا کر پاکستان کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جس کے نتیجے میں صرف 7 سال بعد ایک نئی مملکت کا قیام ممکن ہوسکا۔
(پروفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ (چیئرپرسن شعبہ سیاسیات، جامعہ کراچی
جب برصغیر میں مسلمان اقتدار میں تھے، اس وقت بھی دو قومی نظریہ موجود تھا کیونکہ مسلمان ہر دور میں ہندوؤں کے طرزِ زندگی سے علیحدہ رہے، مسلم تشخص ہمیشہ سے جدا رہا، انہوں نے ہندوؤں کے انداز و اطوار کو اختیار نہیں کیا جبکہ دیگر اقوام کے لوگ ہندوؤانہ انداز میں رچ بس گئے تھے، مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار برس حکومت کی لیکن ان کا رہن سہن، طرز زندگی الگ رہا، مسلمان حکمرانوں نے بنیادی اسلامی عقائد اور اصول پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا، نہ ہی اپنا دین حق ہندوؤں محکوموں پر زبردستی لاگو کیا، حالانکہ ہندو معاشرے ذات پات، رہن سہن، معاشرتی میل ملاپ اور سماجی حوالے سے تقسیم تھا، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختہ ہوتا گیا، ہر دیوتا کا پوجنے والا علیحدہ انداز رکھتا تھا، ان کے تہوار مختلف تھے جبکہ مسلمانوں میں توحید کی یکتائی کا نظریہ تھا، اس وجہ سے دو قومی نظریہ ابتدا سے ہی اس خطے میں موجود تھا، مسلمان حاکم رہنے کے باوجود ہندوؤں سے ظالمانہ سلوک کے روادار نہ تھے جبکہ آج کے دور کا بھارت ہندوتوا پر کاربند ہے، جہاں مسلمانوں کے ساتھ نفرت انگیز اور متعصبانہ رویہ رکھا جارہا ہے، جب انگریز ہندوستان میں آئے تو کئی علاقوں میں مسلمان اقلیت میں تھے، مسلم حکمرانوں نے کسی بھی علاقے میں اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لئے زور زبردستی کا انداز اختیار نہ کی لیکن انگریزوں نے اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا، کیونکہ مسلمان انگریز حکمرانی کے لئے بڑا خطرہ تھے، انہیں جب موقع ملا انہوں نے انگریزوں کے لئے مشکلات کھڑی کیں، ان کے سامنے مزاحمت کی، یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے تعلیم اور معاشی میدان میں مسلمانوں کا استحصال کیا، اس کے مقابلے پر ہندوؤں کی ناجائز حمایت کی، ویسے بھی ہندوؤں کو غلامی کی عادت پڑ گئی تھی، وہ پہلے مسلمانوں کے محکوم تھے تو اس کے بعد انگریزوں کے تسلط کو تسلیم کرچکے تھے، انگریزوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے ہندوؤں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا، انگریزوں نے ہندوؤں کو پنپنے کا خوب موقع فراہم کیا، ہندوؤں کو تعلیم اور معاشیات کے شعبے میں برتری حاصل ہوتی گئی تو انہیں بھی یہ خیال آیا کہ وہ یہاں اکثریت رکھتے ہیں، مسلمان، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ تو اقلیت ہیں، لہٰذا ان کی بالادستی رہنی چاہئے، اسی نظریہ کو آج کے بھارت میں عملی طور پر دیکھا جاسکتا ہے، ایک صدی قبل شیوا جی اور گنگا دل تلک کی تحریکیں جس میں مسلمانوں کو اچھوت قرار دیا، اس پر مسلمان اکابرین اس نتیجے پر پہنچے کہ تعلیم، معاشیات اور سیاسیات میں مسلمان آگے نہیں آئیں گے تو ہندو بالادست ہوجائیں گے، اس لئے تعلیمی تحریک چلی اور سیاسی حوالے سے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی بات ہوئی، سول سروس میں مسلمانوں کا حصہ رکھنے کا مطالبہ کیا گیا، ساتھ ہی جداگانہ سیاسی نظام کے تحت آئین ساز کونسل میں مسلمانوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے، سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ کانگریس ہندوؤں کی نمائندہ جماعت ہے، یہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرے گی، اسی لئے مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی جس نے مفاہمتی رویے کو اختیار کرتے ہوئے ہندوؤں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا نہ ہی کوئی سمجھوتہ کیا، 1930ء میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے سے الہ آباد کے خطاب کے بعد مسلمانوں کی تحریک میں تیزی آئی اور پھر 1935ء ایکٹ میں جو فیڈرل اسکیم دی گئی تھی اس کے خلاف ایک متفقہ موقف سامنے لایا جائے، اس طرح ہمارے اکابرین نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک علیحدہ وطن کے حصول کی کامیاب تحریک چلائی، جو 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں واضح ہو کر سامنے آئی، لیکن ہماری یہ بدقسمتی رہی کہ آزادی کے بعد بھارت کے منافقانہ طرز عمل کو سمجھنے میں غلطی کی اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی اور اس کا نقصان 1971ء میں بنگلہ دیش کی تقسیم اور پھر مقبوضہ کشمیر میں مودی کے ظلم و ستم کی صورت میں سامنے آیا اور یہ سلسلہ بڑھتے ہوئے بھارت کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پالیسی کی شکل میں واضح ہے، ہمیں آر ایس ایس کے عمل اور نظریات کے خلاف ایک موثر حکمت عملی بنانا چاہئے تھی۔
(ڈاکٹر زاہد علی زاہدی (کلیہ معارف اسلامی، جامعہ کراچی
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس قرارداد میں پاکستان کی اصطلاح نہیں استعمال ہوئی تھی اس لئے یہ قراردادِ لاہور تھی، قراردادِ پاکستان نہیں تھی لیکن ہندو پریس نے چوہدری رحمت علی کے پمفلٹ میں لفظ پاکستان کے لکھے جانے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا گیا کہ مسلمان ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں بعد میں یہ پروپیگنڈا حقیقت کا روپ دھار گیا اور ہر مسلمان کی زبان پر لفظ پاکستان آگیا، حالانکہ مسلم لیگ نے 1930ء سے 1940ء تک برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ نہیں کیا شاید مسلم لیگ کے کچھ اکابرین مصلحت سے کام لے رہے تھے جبکہ 1930ء میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے یہ کہا تھا کہ مسلمان اور ہندو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں جو ہر اعتبار سے الگ الگ رہن سہن اور رسم و رواج رکھتے ہیں، اس دوران علامہ اقبال دنیا سے گزر گئے لیکن مسلمانوں کی جدوجہد جاری رہی چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لئے مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں اپنے قواعد و ضوابط رکھتے ہیں تو یہ بات واضح تھی کہ برصغیر میں دو علیحدہ قومیں رہتی ہیں اگرچہ ہمارے اکابرین شروع میں اتحاد کی بات کرتے رہے اور یہ اس لئے تھا کہ صلح حدیبیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کے بعد فتح مکہ ممکن ہوسکا تو اس بنا پر ہمارے اکابرین نے ابتدا میں اتحاد کو اپنایا، گاندھی جی کہتے تھے کہ برصغیر میں ایک قوم ہے لیکن قائداعظم اور دیگر اکابرین نے ہمیشہ اس کی تردید کرتے ہوئے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو اجاگر کیا آج کے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو متعصبانہ طرز عمل ہے یہ ہندو فسطائیت کا قدیم انداز ہے، بھارت میں بسنے والے کچھ مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے حقوق اس نام نہاد سیکولر ملک میں محفوظ رہیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، آج بھارت کے مسلمانوں کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے لیکن اس کے بدلے میں انہیں ہندوتوا کے متعصب کا سامنا ہے، دو قومی نظریہ آج بھی پوری حقیقت کے ساتھ آشکار ہے، مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد کہا گیا کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوگیا لیکن یہ فلسفہ غلط ثابت ہوگیا کیونکہ مودی کی ہندووانہ فسطائیت نے دو قومی نظریے کو مستحکم کردیا۔

نصرت مرزا (چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل
مودی کی ہندو فسطایت سامنے آچکی ہے، بھارت سوشل اور سیکولر ویلیوز کا دعویٰ کرتا تھا اب وہ ہندوتوا کا نظام لاگو کرنا چاہتا ہے، قائداعظم اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ہندو رہنماؤں کی اس تنگ نظری کا اندازہ لگاتے ہوئے ہی برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد شروع کی تھی۔ آر ایس ایس کا کارکن اس وقت بھارت کا وزیراعظم ہے جس کی مسلمان دشمنی گجرات، دہلی اور دیگر بھارتی علاقوں میں مسلمانوں کے ہونے والے قتل عام سے ظاہر ہوچکی ہے، انڈیا کے مسلمانوں سے ناروا سلوک سے دوقومی نظریے کی سچائی ثابت ہوجاتی ہے، ہندوستان کے جو مسلمان رہنما دو قومی نظریہ کی حقیقت کا انکار کرتے تھے وہ بھی اب اس کی اہمیت کو تسلیم کررہے ہیں، اس کے ساتھ بنگلہ دیش کے لوگوں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے کہ پاکستان سے الگ ہو کر انہوں نے مسلمانوں کی قوت کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ آر ایس ایس کے لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور سری لنکا کو ملا کر ایک اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments